کشمیر کا شاہین !!ایک بچہ 13ستمبر 1973 کو ڈھیری بیول کے ایک زمیندار چوہدری ارشاد صاحب کے گھر پیدا ہوتا ہے کسے معلوم تھا ایک زمیندار گھرانے کا چشم چراغ بڑا ہو کر گوریلا جنگ کا شاہین کھلائے گا جس کے نام سے ہی دشمن بھاگ جائیں گئے اس بچے کا نام ماں باپ نے بشارت شاہین رکھا یہی بشارت شاہین جوان ہو کر کشمیر کا شاہین کھلایا بشارت نے ابتدائی تعلیم بیول سے حاصل کی اور میٹرک کراچی سے کرنے کے بعد فوج میں چلا گیا یہ آزادی کا متوالا جلد ہی فوجی ڈسپلن سے تنگ آ گیا اور فوج کو چھوڑ کر جہاد افغانستان میں شامل ہونے کے لئے افغانستان کے سفر پر نکل پڑا افغانستان میں اعلی جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی روسی فوج کی نظر میں آ گیا جس کے بعد روسی فوج نے کمانڈر بشارت شاہین کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام بھی رکھ دیا اسی دوران ایک کامیاب آپریشن سے واپسی پر گرفتار ہو گیا جس کے بعد سولہ سال کی بامشقت قید دے کر بدنام زمانہ پل چرکئی جیل میں قید کر دیا گیا اللہ نے ابھی کمانڈر بشارت شاہین سے کچھ اور کام بھی لینے تھے 1989 میں کمانڈر بشارت شاہین ساتھیوں کے ساتھ پل چرکئی جیل توڑنے میں کامیاب ہو گیا اپنے ساتھ بہت سارے قیدی آزاد کرا کر پاکستان آ گیا کیونکہ اب کشمیر کا محاذ بشارت شاہین کا منتظر تھا کچھ عرصہ پاکستان گزارنے کے بعد ماں باپ کی اجازت سے کشمیر کے مظلوم لوگوں کی مدد کے لئے کشمیر چلا گیا کشمیر میں تین سال گزارنے کے بعد اور انڈین فوج پر اپنی دھاک بٹھا کر گھر والوں سے ملنے 1993 کو پاکستان آ گیا چند ماہ ماں باپ کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس کشمیر چلا گیا جانے سے پہلے کمانڈر بشارت شاہین سب دوست رشتہداروں سے ملا اور گھر والوں کو کہتے ہوتے رخصت ہوا اگر میں شہید ہو گیا اور واپس نہ آ سکا تو آپ نے رونا نہیں ہے اس طرح بشارت شاہین بوڑھے ماں باپ چھوڑ کر کشمیر کی آزادی کے لئے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوا میں یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے بشارت شاہین جتنا دلیر اور جی دار نہیں دیکھا ہم نے بچپن پڑوسی ہونے کی وجہ سے اگھٹے گزارہ تھا کشمیر جانے کے بعد اس کی لازوال کامیابیوں کے بعد کمانڈر بشارت شاہین کو کشمیر کا شاہین کا خطاب دیا گیا اور اسی نام سے کمانڈر بشارت شاہین پر ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے ہمار فخر اور یہ شاہین 19 اکتوبر 1995 کو اپنے آخری مشن پر نکلا آپریشن سے پہلے اپنے میزبان کے گھر گیا اتنے میں انڈین آرمی کو خبر ہو گئی اور انہوں نے کئی سو فوجیوں اور جدید اسلحے سے کمانڈر بشارت کا محاصرہ کر لیا شاہین اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ میزبان کے گھر سے نکل گیا اس کو اندازہ ہو گیا تھا اتنی بڑی فوج اور اسلحے کا مقابلہ تین ساتھیوں کے ساتھ نہیں کر سکتا اس کو اپنے میزبان کی فکر بھی تھی کھلی جگہ پر کمانڈر بشارت شاہین اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ بے جگری سے لڑا اس کو معلوم تھا اس کے سر کی قیمت انڈین گورنمنٹ نے لاکھوں میں رکھی ہے اور فوج اس کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے جبکہ بشارت فیصلہ کر چکا تھا غازی یا شہادت کافی دیر کی لڑائی کے بعد مشین گن کا ایک فائر شاہین کے گندھے پر لگا جس سے گندھا شدید زخمی ہو گیا مگر شاہین نے گرفتاری نہ دی اور دلیری سے لڑتا ہوا کشمیر کی آزادی پر قربان ہو گیا
اے راہ حق کے شہید تجھ پر لاکھوں سلام !! طارق پرویز