صوفی کریم داد صاحب کا تعلق ڈھوک تھتھی بیول سے تھا ۔ مرحوم مجھ سے بڑے تھے ۔ ریٹائرڈ فوجی تھے ۔ بہت دلچسپ اور ملنسار شخصیت تھے ۔ اکثر مجھ سے گپ شپ رہتی تھی ۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ وہ تعویذ گنڈے کا کام کرتے ہیں تو یہ کرامت ان کو کیسے حاصل ہوئی ، کہنے لگے علاقہ کی عورتیں بہت دُکھی ہیں ۔ وہ کسی سہارا کی متلاشی رہتی ہیں ۔ کوئی کرامت نہیں بس نفسیاتی بات ہے کہ ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ میرے دیے تعویذ سے ان کی مصیبت ٹل جاتی ہے ۔ بے تکی انگریزی کچھ اس ڈھنگ سے بولتے تھے کہ سننے والے پر ایک سکتہ سا طاری ہو جاتا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ،جو ان کی انگریزی سے بہت متاثر ہوا ، پوچھا کہ وہ کون سے کالج سے پڑھے ہیں ۔ فرمایا “ لوئی دندی “ کالج ۔اس شخص نے بغیر کسی مزید وضاحت کے سر ہلا دیا ۔
اب قارئین بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ لوئی دندی کالج کس جگہ واقع ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے یہ کالج کہیں دور نہیں بیول کے نواح ہی میں نالہ سریں کے مغربی کنارے اور نو گزے پیر کے مزار، بیول انٹرنیشنل ہسپتال اور پیر حساب قبرستان کے مشرق میں واقع اپنی بے بسی کی داستان سنا رہا ہے ۔ ایک وقت تھا مرحوم صوفی کریم صاحب اپنے مال مویشی چرانے گھر سے بائر نکلتے تو زیادہ وقت اسی لوئی دندی کالج میں ہی گزرتا ۔ علاقہ کے سارے بزرگ اور پرانے لوگ بھی یہی اکٹھے ہوتے تھے اور کریم صاحب زندگی کی بہت سی کارآمد باتیں ان سے سیکھتے تھے ۔ لوئی دندی کالج کی دیواروں کی دراڑوں اور شگافوں میں جنگلی کبوتروں نے اپنے آشیانے بنا رکھے تھے جو وقت کے ستم کا شکار ہو کر یہاں سے کوچ کر گئے ہیں ۔
آج مجھے اپنے اس بزرگ کی اس لیے یاد آئی ہے کہ ہمارے اس بد نصیب ملک پر آکسفورڈ کیمبرج یونیورٹیوں کے فارغ التحصیل لوگوں کا قبضہ ہے جن کو لوئی دندی کے باسیوں کی کچھ فکر نہیں ۔آج میں محسوس کر رہا ہوں کہ کاش ہمارے حکمران وہ لوگ ہوں جو لوئی دندی کالجوں کے پڑھے ہوئے ہوں ۔کیا کریم صاحب سے جو لوئی دندی کے پڑھے تھے اور خواتین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا دے کر ان کا مسئلہ حل کرتے تھے آج کے حکمران بہتر ہیں جو لوگوں کو انڈوں، مرغوں ، کٹوں کے پالنے کی تعلیم دیتے ہیں ، یہی تعلیم تو لوئی دندی کالج سے مرحوم صوفی کریم نے بھی حاصل کی تھی اور لوگوں کو یہ تعلیم دیتے رہے تھے ۔قارئین اکرام ہمارے دیسی مسائل کا حل ہمارے دیسی حکمرانوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔ بیشک وہ “ لوئی دندی “کالجوں کے پڑھے ہی کیوں نہ ہوں ۔
لطیف عالم