جب میں ہائی سکول بیول میں طالب علم تھا تو اس وقت کتب بینی کی طرف جس شخص نے مجھے راغب کیا وہ چچا یونس تھے۔ لوگ انکو چوہدری یونس کے نام سے پکارتے ہیں مگر وہ میرے والد صاحب کے کلاس فیلو اور گہرے دوست تھے اس لیے میں ہمیشہ انکو چچا کہہ کر پکارتا تھا۔ چچا یونس اور میرے والد صاحب ایک ساتھ برطانیہ آئے تھے مگر چچا یونس نے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آ کر باقی زندگی عوامی فلاح پر خرچ کی۔ چچا یونس سخت مزاج آدمی تھے مگر میرے ساتھ انکا رویہ ہمیشہ شفقت بھر رہا۔ بیول میں لائیبریری کا قیام، بیول جامعہ مسجد کی تعمیر چچا یونس کے کارہائے نمایاں ہیں۔ چچا یونس نے لائیبریری اپنے ذاتی خرچے سے قائم کی اور اسکو تا دم مرگ چلاتے رہے۔ میں جب بھی کسی نئی کتاب کی فرمائش کرتا چچا یونس وہ کتاب لے آتے۔ ایک دفعہ چچا یونس نے مجھے اور میرے محروم دوست ساجد محمود مودی سے کہا کہ مجھے کچھ دنوں کے لیے کوئی کام ہے یہ لو چابیاں اور لائیبریری روزانہ کھولنا میں نے ہوٹل والے کو کہہ دیا ہے کہ وہ آپ کو روٹی اور چائے وغیرہ بھیج دیا کرئے گا۔ دو دن ہم نے لائیبریری کھولی اور تیسرے دن ہم رفو چکر ہو گئے۔ چچا یونس بیول میں ہی تھے میرے گھر آئے اور کہنے لگے چابیاں مجھے دو۔ صرف دو دنوں میں بھاگ گئے ہو ویسے باتیں تو بہت کرتے ہو مجھے دیکھو میں پیچھلے تیس سال سے زیادہ عرصے سے یہ لائیبریری چلا رہا ہوں لوگوں کے لیے اپنے خرچے پر کتابیں لاتا ہوں کھانے کا ٹائم ہو تو کھانا کھلاتا ہوں بصورت دیگر چائے ضرور پیش کرتا ہوں مگر تم لوگ دو دن میں ہی بھاگ نکلے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چچا یونس نہایت سخی، علم دوست اور غریب پرور انسان تھے۔
ہمارے موجودہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر چچا یونس کے بھتیجے ہیں جو کافی عرصے سے سیاسی طور پر متحرک ہیں میں نے ایک دفعہ چچا سے پوچھا آپ بھائی جاوید کے لیے ووٹ کیوں نہیں مانگتے تو کہنے لگے میں اپنے ذاتی تعلقات سیاست کی نذر کرنا پسند نہیں کرتا۔ اگر جاوید اچھا ہے تو لوگ خود ووٹ دیں گے۔ چچا یونس حقیقی معنوں میں حق گو، رحم دل، متقی اور خدا ترس انسان تھے ۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے مگر انکے ساتھ وابستہ یادیں آج بھی میرے دل میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ چچا یونس کی قبر کو منور کرئے اور انکو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے آمین
بیول کے افق پر چمکنے والا ایک اور ستارہ محترم چوہدری لطیف عالم ہیں۔ پاکستان اور برطانیہ سے تعلیم حاصل کی اور پھر برطانیہ کی پرآسائش زندگی کو چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے بیول میں آ کر اپنا کاروبار شروع کیا ۔ انکے بڑے بیٹے توصیف عالم میرے دوست تھے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ مجھ سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ میری ان سے کبھی کسی موضوع پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی تھی مگر سوشل میڈیا کے آنے سے انکی پرمغز تحریریں پڑھنے کا موقعہ ملا تو پتہ چلا کہ بیول میں علم کا خزانہ موجود ہے جسکی ہمیں خبر نہیں تھی۔ محترم لطیف عالم صاحب نے بھی چچا یونس کی طرح اپنے ذاتی خرچے سے بیول میں لائیبریری قائم کی جو اب بھی انکے گھر میں موجود ہے جس سے علم کے متلاشی مستفید ہوتے ہیں۔فلاحی کاموں میں چوہدری صاحب بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے ہیں۔ ڈھیری کے قبرستان کی صفائی اور تعمیر نو انھوں نے اپنے ذاتی خرچے سے کی۔ مگر میرے لیے چوہدری لطیف عالم اس لیے بڑے قد کی شخصیت ہیں کہ انکی تحریریں منجمند ذہینوں کو کھولنے اور ترقی یافتہ ممالک اور تہذیبوں سے آگاہی کا ذریعے ہیں۔ چوہدری لطیف عالم کی ہر تحریر پرمغز، دلائل سے مزین، وطن دوستی اور انسانیت کے درد سے لبریز ہوتی ہیں۔ چوہدری صاحب ہمارے لیے باعث فخر شخصیت ہیں ۔ آللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ چوہدری لطیف عالم کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے تاکہ ہم انکی تحریر سے استفادہ کرتے رہیں
جہانگیر اشرف