آج سے بیول چودھری محمد یونس کے بغیر ہوگیا ، انہیں بہت سے لوگ جانتے ہیں اور بہت سی حثیتوں سے جانتے ہیں ، ایک سیاستدان کے چچا ، ایک سماجی شخصیت ، ایک مذہبی خدمت گار ، ایک علم دوست ۔۔۔ وہ یہ سب تھے بھی لیکن میں انہیں اس سے ہٹ کر بھی جانتا ہوں اور اسی وجہ سے زیادہ عزت و احترام بھی کرتا ہوں اور پیار بھی ، کوئی جاننا چاہئیے تو بیول کے ڈاکٹروں ، میڈیکل سٹوروں ، کپڑے کی دوکانوں اور کریانہ فروشوں سے پوچھ لے ، شاید کوئی بتا ہی دے۔۔ہوسکتا ہے ڈاکٹر طارق ہی بول پڑے۔۔۔کیا بعید جبر میں قائم پاکستان کلاتھ والے بیول میں اپنے کاروبار کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کچھ بتا دیں؟ اور ہاں بہت ہی خاموشی سے ۔۔ ڈھول پیٹے بغیر۔۔ ایکسپوز کیے بغیر۔۔۔ پردہ اٹھائے بغیر۔۔ تفریق کیے بغیر۔۔۔ یہاں تک کہ بعض اوقات گنے بغیر بھی ۔۔
ایک اور خوبی ۔۔۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی معافی مانگ لینا ۔۔ بات دل میں نہ رکھنا ۔۔
میں کچھ چیزوں کا گواہ ہوں اور کچھ کا سفارشی ۔۔ رابطہ کار ۔۔۔ بتا دوں تو مستفدین شاید مائینڈ نہ کریں لیکن چودھری صاحب سے ڈر لگتا ہے ۔۔ ناراض نہ ہوجائیں کہیں۔۔ڈانٹ دیں گے ۔۔کہا نا پردہ رکھنا ، خاص کر سفید پوشوں کا پردہ رکھنا انکل کی سنت تھی ، ورنہ اپنے والد کے بعد شاید یہ دوسرے شخص ہیں جنکی تصویر ڈی پی بنائی ۔۔۔۔بہت خوبصورت اور دلچسپ باتیں ہیں ہمارے درمیاں ۔۔ کبھی وہ بھی شئیر کرنے کی کوشش کرونگا
Sajid Mehmood
July 10, 2016
چوہدری جاوید کوثر ایڈووکیٹ کے چچا ‘ بیول کی معروف سماجی شخصیت چوہدری محمد یونس اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے ہیں۔ دس جولائی بروزاتوار دن گیارہ بجے نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد ڈھیری بیول میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ چوہدری محمد یونس کم وبیش گزشتہ چالیس برس سے مرکزی جامع مسجد بیول کی تعمیر وتوسیع کے کاموں میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔بیول مسجد کی خدمت کے لئے چند اکٹھا کرنے میں انہوں نے کبھی عار محسوس نہیں کی۔ اپنی ذاتی جیب سے بھی نہایت فراغ دلی سے خرچ کرتے ۔ وہ گزشتہ کئی عشروں سے بیول میں اپنی ذاتی لائبریری چلا رہے تھے۔قارئین سے کسی قسم کی کوئی ممبرشپ فیس نہیں لی جاتی تھی۔ ہر آنے والے کی تواضع بھی کرتے ۔ انہوں نے کئی عشرے قبل جب بیول میں لائبریری قائم کی تو لوگوں کو ترغیب دلانے کے لئے نہایت فراغ دلی سے وہ دو دو تین تین کتابیں بیک وقت جاری کر دیتے لیکن ابتدا میں کئی لوگوں نے انہیں کتابیں واپس نہیں کیں۔ ان میں مساجد میں تعینات ہونے والے غیر مقامی علما بھی پیش پیش رہے جو جاتے جاتے لائبریری کی کتابیں بھی ساتھ لے جاتے۔ کم و بیش ایک بڑے کمرے پر مشتمل لائبریری جتنی کتب اسی طرح ضائع ہو گئیں لیکن اس کے باوجود چوہدری یونس صاحب دلبرداشتہ نہیں ہوئے اور اس سلسلہ کو جاری رکھا۔انہیں اولیا اللہ سے بہت پیار تھا۔ غالباً گولڑہ شریف بیعت تھے۔بیول کے مقامی مجذوب بزرگ باباسائیں محمد جی ؒ سے انہیں بہت پیار تھا۔ ان کے چند واقعات انہوں نے ہم سے بھی شیئر کئے۔سائیں محمد جی ؒ کے وصال کے وقت ان کی تدفین کرنے والوں میں چوہدری محمد یونس صاحب بھی شامل تھے۔انہوں نے اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ شدید گرمی کے موسم میں جب سائیں محمد جی ؒ کو قبر میں اتارا تو ہم نے قبر میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے محسوس کئے۔ باباسائیں محمد جی ؒ صاحب کے چند تبرکات بھی چوہدری یونس صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے سائیں محمد جی صاحبؒ کی طرف سے تحفہ کی گئی دو چادریں دکھائیں جنہیں بابا سائیں محمد جی ؒ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا (سیا تھا)۔ جوانی میں چوہدری یونس صاحب کبڈی کے شیدائی تھے۔ خود بھی کبڈی کھیلتے رہے اس لئے وہ اکثر کبڈی کے کھیل کی سرپرستی کرتے۔ جوانی کے دنوں میں وہ کافی سخت طبیعت تھے۔ بیول بازار میں اگر رمضان کے دنوں میں کوئی ہوٹل کھولتا یا کچھ کھاتا نظر آتا تو بہت سختی سے پیش آتے۔ اسی دباؤ کی وجہ سے ابھی تک لوگ ایسا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔چوہدری یونس صاحب کے انداز تخاطب سے اگرچہ ناواقف لوگوں کو یہ گمان ہوتا تھا کہ وہ بہت سخت طبیعت کے انسان ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہ تھا۔ وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے جو معاشرے کی بھلائی کے لئے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اللہ چوہدری محمد یونس صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ بخشے۔