ایک وقت تھا بیول اور اس کے مضافات میں چاچا منگتا صاحب کیٹرنگ کی دنیا کے بادشاہ تھے آج زمانے نے کروٹ بدلی تو یہ شعبہ ترقی کر کے نت نئی شکل اختیار کر گیا لیکن میں جس زمانے کی بات کر رھا ھوں اس وقت شادی بیاہ اور اس جیسی دیگر تقریبات میں معیاری کام چاچا منگتا صاحب سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا ۔
حافظ آفتاب صاحب کی دوکان سے باہر انہیں دیکھ کر بہت سی شادیوں کے ” میل ” یاد آ گئے ۔۔۔۔۔۔ جی جی ” میل ” اس وقت ولیمے نہیں میل ھوا کرتے تھے اور اس میل کا موقع بارات سے ایک دن پہلے ھوا کرتا تھا اس میل میں برادری اور دوستوں کو گھر بلا کر بھی کھانا کھلایا جاتا تھا اور چاچے منگتے کے ھاتھوں بنی درجنوں دیگوں کے چاول گھروں میں بھی جا جا کر تقسیم کئے جاتے تھے دیگ چولہے سے اترتی اور اسکے چاول ٹپ میں منتقل ھو جاتے تھے اور اس ٹپ کو دو بندے اٹھا کر قریبی گاوں میں جا کر تقسیم کرتے تھے جن میں ایک سیانا اور ایک سادا ھوا کرتے تھے سیانے کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ یاد رکھتا تھا کہ فلاں کے گھر اتنے گلاس چاول دینے ھیں اور فلاں کے گھر اتنے گلاس جبکہ سادے کی ڈیوٹی ٹپ کو دوسرے کنڈے سے پکڑ کر لے جانے کے علاوہ کچھ نہ تھی ، میٹھے چاولوں کی وہ راحت بھری خوشبو آج چاچے منگتے کو دیکھ کر یاد آئی اور بھرپور یاد آئی اور مجھے امید ھے کہ آج انہیں دیکھ کر میرے ان سب بھائیوں کو بھی یاد آئی ھو گی جنہوں نے سیانے یا سادے کی حیثیت سے ٹپ اٹھا کر قریبی گاؤں کے سفر کئے ھونگے ۔
آجکل چاچے منگتا صاحب کی صحت خراب ھے ان کے لئے دعا کیجئے گا کہ اللہ کریم انہیں صحت مندی عطا فرمائے آمین ۔