آج ایک ایسے استاد کی بات شروع ہورہی ہے جو کمرہ جماعت میں داخل ہوتےتو پوری جماعت کو سانپ سونگھ جاتا اور اگر کسی کو کھڑا ہونے کو بولتے تو اس کی بولتی بند ہوجاتی پوری جماعت ان کا نام سن کر ہی کانپ جاتی جتنی دہشت میں نے ان کی آپ کے دلوں میں بٹھا دی ہے شاید اس سے کچھ زیادہ ہی دہشت ہم پر ان کی اس وقت قائم تھی سنجیدہ متین اور بردبار طبیعت کے مالک ماسٹر محمد بوٹا گل سائنس ٹیچر تھے فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور بائیولوجی کے ماہرتھے اور پنجاب کے کسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے بیول میں ان کی تعیناتی غالباً سن 1982 کے لگ بھگ ہوئی تھی اور سترہ اٹھارہ سال انہوں نے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بیول میں گزار دیئے اس دوران ہزاروں طلباء ان کے علم سے فیض یاب ہوئے ریاضی کے مضمون میں اس قدر طاق تھے کہ سوال کو دیکھ کر ہی ان کو جواب اور جواب تک پہنچنے کا طریقہ کار معلوم ہوجاتا ریاضی کے مسائل کو سلجھانے اور سمجھانے میں اس قدر ماہر تھے کہ پوری جماعت میں سے ایک آدھ ہی کوئی ناکام ہوتا ناچیز کے جماعتیے رقیب، راحیل، جمیل کافی ذہین تھے گِل صاحب نے کہا ”جس جس نوں سوال یاد نی اوہ کھڑے ہوجاؤ“ ایک ایک کرکے لڑکے کھڑا ہونا شروع ہوئے آدھی جماعت کھڑی ہو گئی، اب پھر انہوں نے کہا کیا باقی سب کو یاد ہے، چند لڑکے اور کھڑے، پھر کہا”باقی سباں نوں یاد اے“ دیکھتے ہی دیکھتے چار پانچ لڑکوں کو چھوڑ کر پچاس سے زائد کی تمام جماعت کھڑی ہوگئی ماسٹر جی نے کہا”تشریف لے چلو نا باہر“ اب باقی جماعت باہر تشریف لے گئی تو راحیل اور رقیب سے انہوں نے کچھ سبق سنا جو انہوں نے اپر تھلے ہوتی سانسوں سے سنایا اور ساتھ ہی کہا ماسٹر جی لکھ کر دے سکتے ہیں سنانا مشکل ہے آپ سوچ رہے ہونگے کہ ناچیز کس ٹولے میں تھا جماعت میں بیٹھے رہ جانے والوں میں یا باہر تشریف کا ٹوکرا لے جانے والوں میں، یہ اندازہ خود کرلیں۔ خیر باہر والوں کو ماسٹر جی نے وہ کُٹ چڑھائی وہ کُٹ چڑھائی کہ انہوں نے بھی اس دن سے سبق یاد کرنے کی قسم اٹھا لی یہ الگ بات کہ ان کی قسمیں بھی جھوٹی ہی رہیں تمام طلباء کی طرح۔ ریاضی کا پرچہ دے کر ہم باہر آئے تو ماسٹر جی نے پرچہ دیکھا تو ان کا رنگ بھی اڑ گیا پوری جماعت کو کھڑا کرکے تمام سے باری باری پرچے کے سوالات کے بارے میں دریافت کیا اور آخر میں کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ نے کیسا پرچہ دیاہے اس کی وجہ یہ تھی کہ پورے کا پورا پرچہ سلیبس سے باہر کاتھا سوائے چند سوالات کے۔ اس پرچے میں تمام کی تمام جماعت پاس ہوگئی سوائے عبدالحمید پُھوئی کو چھوڑ کر، اب یہ کون ہے اگر اس نے تحریر کو پڑھا تو کمنٹ میں آجائے گا تاہم ہم ساتھیوں کے ریاضی میں وہ نمبر نہ آسکے جس کے لیے ہم نے تیاری اور محنت کی تھی یا جو توقع ماسٹر جی نے ہم سے کر رکھی تھی ماسٹر محمد بوٹا گِل آخر کار بیول کو ریٹائرمنٹ سے قبل ہی الوداع کہہ گئے وجہ جو بھی رہی ہو تاہم ان کا ارادہ یہیں سے ریٹائر ڈ ہونے کا لگتا تھاسنا ہے کچھ طلباء انہیں ملنے ملانے جاتے رہے موجودہ تصویر میں ماسٹر جی نے لمبی داڑھی مبارک رکھ چھوڑی ہے تاہم اس وقت بغیر داڑھی کے سوبر شخصیت اور بہترین سخت گیر استاد کے روپ میں نظرآتے رہے خالق ارض و سماء سے دعاہے ان کو صحت والی لمبی زندگی عطافرمائے۔آمین
ایم ندیم رانا