خادم کاسموسہ …. پتہ نہیں سموسہ حاجی خادم کا خادم ہے یا حاجی خادم سموسے کا خادم ہے دو میں سے جو بھی بات ہے لیکن یہ دو لفظ اس قدر ایک دوسرے سے نتھی ہوگئے ہیں کہ ہر خاص و عام کہتاہے ”خادم نے سموسے کنڑن جُلیاں آں“۔ اپنے بیول میں سموسے تو بہت سے لوگ بناتے ہیں معیار بھی اچھا ہے بہترین بھی ہوتے ہیں مگر جو شہرت حاجی خادم کو سموسے سے ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی میلاد چوک کے قریب واقع موجودہ راجگان پلازے والی جگہ پر سوزوکی کیری اڈہ ہواکرتا تھا جہاں ڈرائیور اپنی گاڑیاں کھڑی کر تے تھے اور یہیں سے بکنگ پر جاتے آتے تھے فارغ وقت میں یہیں گپیں ہانکتے لڈو تاش کھیلتے اور پکوڑے سموسے کھاتے اس کے سامنے دو دکانیں ہواکرتی تھیں جن میں سے ایک حاجی خادم اور ایک اشتیاق پہلوان کی ہوتی تھی اور دونوں حضرات مٹھائیوں کے کاریگر تھے بعد میں دونوں آر پار دوسری جگہ منتقل ہوگئے حاجی خادم صاحب کے فرزند شوکت وارثی ان کے کام میں معاون ہوئے جنہوں نے کام کو عروج بخشا اور حاجی خادم صرف دیکھ بھال تک رہ گئے تاہم سموسے کا وہ معیار جو انہوں نے متعارف کروایا ان کی پہچان بن گیااورایک جملہ جو بہت مشہور ہوا”حاجی خادم کا سامان دریا کے کنڈے تک جاتا ہے“۔ حاجی صاحب کا سامان دریا کے کنڈے تک جاتا تھا یا نہیں البتہ ان کی شہرت دریا کے کنڈے تک تھی بہت اچھی شخصیت کے مالک تھے ہر خاص و عام سے اچھی گفتگو کرتے تاہم اپنے ہمعصروں اور دوستوں سے نوک جھونک کرتے تو سننے والے کو بھی مزہ آجاتا مزاحیہ گفتگو اس قدر بے ساختہ ہوتی کہ گفتگو سننے کا من کرتا تقریباً ایک سال ہونے کو ہے حاجی خادم اچانک اس دار فانی کو چھوڑ کر ابدی حیات پاگئے جب وہ نمازعشاء کی ادائیگی کرکے گھر پہنچے دیکھنے سننے والوں کویقین کرنا ہی مشکل ہوگیا کہ ایک اچھا بھلا ہنستا مسکراتا شخص اچانک اتنی تیزی سے دنیا کو چھوڑ سکتاہے دعا ہے مالک کائنات حاجی صاحب کی قبر کو بقعہ نور بنائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل پر اجر عظیم عطافرمائے۔ آمین
ایم ندیم رانا