کسی علاقے کے مسائل ومصائب سب سربراہ کی عقل و شعور اور طاقت کے محتاج ہوتے ہیں.تعلیم کی کمی اورشعور واگہی سے محروم عوام 72 برسوں سے تسلیوں اور پرفریب نعروں پر ہی زندگی گذار رہے ہیں تیسری نسل۔جوان ہوچکی اور ہم ہیں کے دائرے کے سفر میں .ہیں پورے ملک کی طرح یونین کونسل بیول کے عوام بھی وعدے وعید اور یاس وآس پر ہی گذارہ کیے ہوئے ہیں کبھی ایک تو کبھی دوسرا وعدوں کی تکمیل کا یقین دلا کر مسلط ہوتا ہے گذشتہ پنچ سالے میں قومی اور صوبائی نشتوں پر حتی کہ یونین کونسل میں بھی لیگی حکومت رہی جبکہ ان سے قبل کے پنچ سالہ پیپلز پارٹی کے اراکین نے اس حلقے کی نمائندگی کی لیکن دونوں بیول کے دیرینہ مسائل کو حل کروانے میں ناکام رہے۔
گزشتہ اور موجودہ دور حکومت میں صوبائی نشت پر بیول کے فرزندوں کی کامیابی نے یہاں کے عوام کو کافی پرامید رکھا۔گو کہ چوہدری جاوید کوثر صاحب کی کامیابی کو ابھی نو ماہ کا ہی عرصہ گذرا ہے اس لیے انہیں موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا تاہم ان سے پہلے جو جو کامیاب ہواوہ اس مصائب کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے بیول کےسرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کی بات کی جائے تو حاصل جمع زیرہ دیکھائی پڑتا ہے بھیانک انکشاف یہ کہ اساتذہ کی اکثریت مبینہ طور تعلیم دینے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ان پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام سرے سے فعال ہی نہیں۔ مادر پدر آزادی کے اس ماحول میں بنیادی مرکز صحت اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے .کہ یہاں آنے والے مریض مزید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں
ڈاکڑوں کی عدم دستابی معمول ہے وٹنری ڈاکٹر اپنی تعیناتی کے باوجود فرائض کی ادائیگی سے بے بہرہ ہے وٹنری ڈاکٹر کی ڈیوٹی سے غفلت کے باعث ہی بیول کے عوام مضر صحت گوشت کھانے پر مجبور ہیں کہ قانونی گرفت نہ ہونےکی وجہ سے قصاب حضرات اپنے جانور ڈآکٹر سے پاس کروانےکی زحمت ہی نہیں کرتے۔سلاٹر ہاوس کی عدم موجودگی کے باعث قصاب حضرات کھلی اور الودہ جگہ جانور ذبح کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
ابلتے گٹروں نے گذر گاہون کو تالاب کی صورت دی رکھی ہے۔ ناجائز تجاوزات کے خلاف سرسری اور جانبدارانہ کاروائی نے اس ایشو کو متنازعہ بنا کر رکھ دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ووٹ دے کر سونے کے بجائے اپنے حقوق کے لیے باقائدہ جنگ کریں۔اپنے منتخب نمائندوں کو ان کے وعدے مسلسل یاد دلائیں اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر ووٹ دےکر ہر بار سینہ کوبی کا پرانا انداز بہی بدل دیں۔کچھ تو نیاکریں کہ پاکستان بھی نیا بن چکا۔تبدیلی کی لہر آئی ہے اسی فائدہ اٹھائیں اور اپنے عادات تبدیل کرلیں۔اگر ھمارے صحافی حضرات اسی طرح حق کے لیے اواز بلند کریں تو یہ حکومت تبدیلی نہیں لاے گی تبدیلی ھم خود لے آیں..