اوئے با غیرتو بندے بنو نی تے میں مارسے ۔ یہ الفاظ ہوتے تھے ماسٹر انور صاحب کے جب وہ کلاس روم میں آتے تو شور کرتے طلباء کو دیکھ کر ایسا کہتے اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کو دوتین ڈیسکوں پر بجاتے چلے جاتے جس سے طلباء کو ان کے خوف و دہشت کے سبب چُپ سی لگ جاتی ناچیز بھی انہی میں سے ایک تھا جو ماسٹر جی کو دیکھ کر کانپ جاتے اور ان کا دیا ہوا سبق جھوم جھوم کے یاد کرتے اور فر فر کر کے سناتے اوربغیر رُکے لکھتے چلے جاتے یہ تو بہت بعد میں جاکر معلوم ہواکہ ان کا غصہ مصنوعی ہوتا تھا اور جو ہر وقت طلباء پر رعب جھاڑتے رہتے تھے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے ورنہ بہت شگفتہ اور رنگین حس مزاح کے مالک تھے وقت کے بہت پابند تھے اور اپنے پیریڈ کے وقت پر ہی تشریف لاتے اور اختتام سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوتے یہ الگ بات کہ اس دوران انہوں نے گپیں لگائی ہیں یا پڑھائی کی ہے چونکہ راقم ان سے چھٹی ساتویں جماعت ہی پڑھ سکااور وہ بھی ایک عرصہ بیت گیا اس لیے زیادہ باتیں یاد نہیں اس کی وجہ راقم کی بدقسمتی ہے یا ماسٹر جی کی۔ کہ ماسٹر جی نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ زندگی سے ریٹائرمنٹ نہیں لی بلکہ ماسٹری کے شعبہ سے ریٹائر ہوگئے اور ہم مزید ان کے تجربات اور رعب داب سے محفوظ رہے ساتویں جماعت میں ہمارے ساتھ ایک لڑکا قیصر صدیق نام کا پڑھتا تھا جو پکاکھوہ کا رہائشی تھا قیصر صدیق نے ماسٹر جی کو کہا کہ ماسٹر جی میری طبیعت ٹھیک نہیں بخار ہے سخت۔ ماسٹر جی نے اسے چھٹی دیتے ہوئے کہا کہ جاتے ہوئے راستے میں دیکھنا کوئی تازہ گابھن ہوتو اس کا دودھ پی لینا ٹھیک ہوجاؤ گے۔جس پر ساری جماعت ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئی اسی طرح طلباء سے اکثر یہ سوال بھی پوچھتے کہ چاہ پی تے………انڈا کھادا ای ماسٹر جی مدنی محلہ کے رہائشی اور ملک طارق کے والد محترم تھے
بہت ہی محبت کرنے والی شخصیت میرے اور ساجد بٹ صاحب کے بھی ٹیچر رہے ہیں حبیب رشید کے تایا جان اور ملک نعمان طارق کے دادا جان تھے
ماسٹر جی کو اس دنیا کو الوداع کیے سالوں بیت گئے تاہم ان کی یادیں ان کی باتیں آج بھی دل سے محو نہ ہوسکیں دعا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ مرحوم ماسٹر انور کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور ان کے شاگردوں کو ان کی بخشش کا وسیلہ بنائے۔ آمین ثم آمین